Orhan

Add To collaction

اک ان چاہا رشتہ

اک ان چاہا رشتہ از سحر نور قسط نمبر8

ٹوٹ بھی گئے تو فکر نہیں جوڑنے والا بھی تو کمال ہے (نور) اسد پھولتے سانس کے ساتھ زین کے پاس آکر بیٹھا۔ یار۔۔ ہااااا۔۔۔ وہ۔۔ تیری وہ ۔۔۔۔ ہا۔۔۔ ہا۔۔ وہ لمبے لمبے سانس لے رہا تھا۔ کیا وہ وہ لگائی ہوئی ہے۔۔ سیدھے پھوٹو منہ سے۔۔ چل۔۔ اب نہیں پھوٹ رہا کر لے جو کرنا۔ اسد بھی ڈھیٹ ہوگیا۔ اب بول رہا یالگاؤں۔۔ یہ تو سیدھا تشدد پہ کیوں اتر آتا ہے۔۔ اسد نے منہ بگاڑ کر کہا۔ وہ۔۔ زرش سِسٹر ہیں نا۔۔ زین کے ڈر سے وہ بھی اب زرش کو یہی پکارنے لگا تھا۔ ہاں۔۔ کیا ہوا زین کے فوراً سے کان کھڑے ہوگئے۔ ان کی اگلی دو کلاسز فری ہیں۔ اور میں انکو لائبریری جاتے دیکھا ہے۔ اچچچھااااا۔۔ زین سے اچھا کو لمبا کھینچتے ہوئے کہا۔ چل یہ میری چیزوں کو سنبھال میں چلا۔۔ زین نے سب اسد کے حوالے کیا اور لائبریری کی جانب چل پڑا۔ 🌹🌹🍁🍁🍁🍁🌹🍁🌹🍁🌹🍁🍁🍁🌹🍁🌹 زین نے زری کو ایک ٹیبل پہ اکیلا بیٹھے دیکھا۔ وہ گھومتے ہوئے اس کی طرف ہولیا۔ ایکسکیوزمی۔۔ زین نے کنکھارتے ہوے اسے مخاطب کیا۔ جی۔۔ زری نے چہرہ اوپر کرکے بلانے والے کو دیکھا۔ کیا میں یہاں بیٹھ سکتا ہوں۔۔ زری نے ایک لمحے کیلئے سر گھوما کر ادھر ادھر دیکھا اردگرد کے ٹیبل بھی فری ہی تھے۔ زین اس کے ارادے بھانپتے ہوئے کہا۔۔ وہ۔۔ میں۔۔ ایکچوئلی ۔۔ آپ کو اکیلے بیٹھے دیکھا۔۔ میں بھی اکیلا ہی بیٹھنا ہے تو سوچا ادھر ہی بیٹھ جاتا ہوں آپ کو برا لگا تو میں چلا جاتا ہوں۔۔ بیٹھ جائیں۔ زری نے مختصر سا جواب دیا۔ شکریہ۔۔ زین فوراً بیٹھ گیا۔ زین۔۔ زین العابدین نام ہے میرا۔۔ ادھر بزنس ڈیپارٹمنٹ سے ہی ہوں میں۔۔ آپ بھی ادھر سے ہی ہیں نا۔۔ زری نے بس سر ہلانے پہ ہی اکتفا کیا۔ آپ کانام زرش ہے نا۔ زری نے اب حیرانگی سے زین کو دیکھا۔ وہ۔ وہ میں نے کارڈ پہ دیکھا تھا۔۔ آپ کا کارڈ۔۔ جو اس دن گر گیا تھا۔ زین نے فورا صفائی دی۔ اوہ۔۔ اچھا۔۔ آپ اکیلے کیوں بیٹھی ہیں۔۔ یہاں۔۔ فرینڈز کدھر ہے آپکی۔۔ معلوم نہیں کدھر ہیں۔۔ زری جیسے بلکل ہی جواب نہ دینے کے موڈ میں تھی۔ اچھا۔۔ صحیح ہے۔ سِسٹر۔۔ زین نے اب جیسے ہار مان کر کہا۔ زری کو جیسے بہت عجیب سا لگا اسکا اسے سِسٹر کہنا۔ سِسٹر کیوں کہا آپ نے مجھے؟ زین:۔ وہ۔۔ پتہ نہیں بس دل نے کہا کے آپ کو بہن کہوں۔ کیوں کہا؟ یہاں کب کوئی ایسا رشتہ رکھتا ہے۔۔ کوئی دوسرے کو ایسے ہی عزت کیوں دے۔؟ زین:۔ بہنا! مجھے نہیں معلوم۔۔ میں نے کئ لڑکیوں کو دیکھا۔ بلکہ یہ کہہ لیں میرا بہت لڑکیوں سے رابطہ بھی ہے۔ میں کوئی خود کو اچھا انسان نہیں کہتا۔ مگر آپ کو دیکھ کر بس ایک ہی سوچ دل میں آئی ہمیشہ۔ کہ آپ ان سب جیسی نہیں ہیں۔ آپ مختلف ہیں۔ زری بس اس کی باتیں خاموشی سے سنتی گئ۔ ٹھیک۔۔ ایک مختصر سا جواب۔ اچھا چھوڑیں۔۔ کوئی اور بات کریں۔ نہیں مجھے چلنا ہے۔ اللّه‎‎ حافظ۔ زری اٹھی اور لائبریری سے باہر نکل گئ۔ 🌹🌹🌹🍁🍁🍁🌹🌹🍁🍁🍁🍁🌹🌹🌹🌹 آخر میں عام لڑکیوں کی طرح کیوں نہیں سوچتی۔۔ آخر اور بھی تو لوگ ہیں اس دنیا میں جن کو دھوکے ملے ہیں۔۔ میں کیوں اس سب کو اتنا اپنے سر پہ سوار کر رہی ہوں ۔ وہ جتنا سوچ رہی تھی اتنا ہی الجھ رہی تھی۔
اسکے دل پہ جو بوجھ تھا وہ چاہ کر بھی کسی اپنے سے شیئر نہیں کرسکتی تھی۔ کیونکہ وہ نہیں چاہتی تھی کہ گھر میں کوئی ہنگامہ ہو۔ اور نتیجہ میں اسکی پڑھائی قربان ہوجائے۔ اسے اچھے سے معلوم تھا وہ پہلی لڑکی تھی گھر کی جو یونیورسٹی گئ۔ اور اگر وہ کچھ بتا دیتی ہے تو یقیناً اسکا گھر سے نکلنا بند ہوجاے گا۔ اس کا احساس گناہ بڑھنے کی وجہ شاید اسکا رب سے نزدیک ہونا تھا۔ اسے لگتا تھا اس نے ایک نامحرم سے جو غلط الفاظ سنے ہیں وہ سب اسکے گناہوں پہ بھاری پڑ رہے ہیں۔ اس کا دل روتا مگر تسلی دینے کو کوئی نا ہوتا۔ اسکااکیلا ہونا ہی اس کیلئے زیادہ عذاب تھا۔ شاید کسی کے تسلی کے دو بول اس کو اس حالت سے جلد نکال لیتے۔ 🌹🌹🌹🌹🍁🍁🍁🍁🌹🌹🌹🌹🍁🍁 زین اب اکثر زری کے پاس آجاتا۔ اسکی بس یہی کوشش ہوتی کہ اس اداس لڑکی کو وہ ہنستے دیکھ سکے مگر اسے ہر بار ایک لمبی خاموشی اور مختصر جواب کے علاوہ اور کچھ نہیں ملتا۔ بہنا۔۔ کتنے بہن بھائی ہیں آپ؟ تین۔۔ زری نے لاپرواہی سے جواب دیا وہ اب بھی لیپ ٹاپ میں گھسی اسائنمنٹ بنا رہی تھی۔ اچھا ااااا۔۔۔ ہم چھ ہیں۔۔ ہاہاہاہا۔ ہمارے خاندان والوں نے تو قسم کھائی ہوئی ہے۔ پانچ سے نیچے کوئی بھی نہیں ہونا چاہیے۔۔ زری کے چہرے پر لمحے بھر کو مسکراہٹ آئ اوہ۔۔ آپ ہنستی بھی ہیں۔۔ زین نے خوشی سے کہا۔ زری نے بس سر ہلانے پر اکتفا کیا۔ بہنا یہ دیکھو۔۔ وہ اب موبائل پہ اسے کسی لڑکی کی تصاویر دکھا رہا تھا۔
کل سے پیچھے پڑی ہے۔۔ میسج پہ مسیج۔۔ میں بھی پھر آگے سے ایسی گیم چلائی ہے۔۔ فین ہوگئی میری۔۔ ہاہہا۔ آپ یہ سب مجھے کیوں بتا رہے ہیں۔۔ زری نے اب کافی بیزاری سے کہا۔ بہنا اسلئے۔۔ کیونکہ میں آپکو بتانا چاہتا ہوں۔۔ پتہ نہیں لڑکیوں کو اور کوئی کام نہیں ملتا جو ہم لڑکوں کے پیچھے پڑی رہتی ہیں۔ تو اپ نہ جواب دیا کریں۔ روک تو سکتے ہی ہیں آپ۔۔ روک سکتا ہوں۔ پر اب خود جو چل کر آے اور مسلسل ایک ہی بات کرے اسکا میں کیا کروں۔ زین نےکہا۔ یہ آپکی اپنی غلطی ہے۔ جو لڑکی آپ کو میسج کرے اپ اسے روک سکتے ہیں۔ خدا کیلئے بس کردیں لڑکیوں کا تماشا بنانا۔ زری اب پھٹ پڑی۔ کیا سمجھ رکھا ہے آپ لوگوں نے لڑکیوں کو۔۔ ٹائم پاس ہیں۔۔ وقت گزاری کی اور چلے گئے۔۔ کسی کی زندگی برباد ہوجائے وہ کوئی پرواہ نہیں ہے۔۔ خدا کیلئے بس کردیں ۔۔ آپ۔۔ آپ پلیز ناراض نہ ہوں۔ میں آئندہ نہیں کرونگا سچ میں۔۔ میں وعدہ کرتا ہوں۔۔ میں اچھا بنوں گا۔ جائیں جا کر اللّه‎‎ سے معافی مانگیں ۔۔ زری اتنا کہہ کر آٹھ گئی۔ 🍁🍁🍁🌹🌹🌹🌹🌹🍁🍁🍁🍁🌹🌹🍁🍁 زین زری کے رویے سے کافی پریشان تھا۔۔ جو بھی تھا وہ اسے دل سے بہن تسلیم کرچکا تھا۔ آخر ایسا کیا ہے جو یہ اتنی نفرت کرتی ہیں لڑکوں سے۔ میں کیسے کہوں کہ میں دوسرے لوگوں کیطرح ان کو تکلیف دینے نہیں آیا۔ میں تو چاہتا ہوں وہ خوش رہیں۔ پر وہ تو کوئی بات ہی نہیں کرتی۔ اوہ خدا کیا کروں۔۔ اسی لمحے زین کے موبائل پہ کال آنے لگی وہ اسی لڑکی کی کال تھی جسکا وہ زری کو بتا رہا تھا۔ اسنے کال کاٹ دی اور اس لڑکی کو سرے سے بلاک کردیا۔ میں پوری کوشش کرونگا بہنا کہ میں اب غلط رستے پر نہ چلوں۔ زین نے خود سے وعدہ کیا۔ 🍁🍁🍁🍁🌹🌹🌹🌹🍁🍁🍁🌹🌹🌹🍁🍁 زری کا تیسرے سمیسٹر کا رزلٹ آؤٹ ہوا تو اسے اچھا خاصا جھٹکا لگا۔ کیوں کہ وہ کافی ڈاؤن جا چکی تھی۔ وہ مزید سٹریس میں آگئی۔ گھر میں سے اب کسی نے اسے کچھ نہیں کہا۔۔ مگر زویا کبھی کبھی ضرور طنز کرتی رہتی۔ اس نے اب زویا کو اگنور کرنا شروع کردیا کیونکہ وہ جانتی تھی کہ اسکا کوئی حل نہیں ہے۔ آپ اتنی پریشان کیوں بیٹھی ہیں۔۔ زین نے اسے پریشان بیٹھے دیکھا تو رہا نہ گیا اور آکر اس سے پوچھ بیٹھا زری خود پہ کنٹرول نہیں رکھ پائی۔۔ اور آہستہ آہستہ اس نے چند واقعات چھوڑ کر زین کو سب کہہ دیا۔ اسے کوئی چاہیے تھا جس سے وہ سب کہہ دیتی۔۔ آج زین کے سامنے اس کے سب بند ٹوٹ گئے۔ بھیا! بتائیں مجھے کیا کروں میں۔۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا۔ آج پہلی بار زری نے اسے دل سے بھائی کہا۔ بہنا۔۔ جب تک میں ہوں۔۔ تب تک آپکو اب کوئی پریشانی اپنے سر لینے کی ضرورت میں ہے۔ اور آپ میرے سے وعدہ کریں آپ اب روئیں گی بھی نہیں۔ میں خود لڑکا ہوں اور ان سب باتوں سے اچھے سے واقف ہوں۔ پر بہنا ایک بات کہہ دوں آپکو ہر کوئی ایک جیسا نہیں ہوتا۔ میں نے اج تک خود سے جان بوجھ کر کسی لڑکی کو ٹریپ نہیں کیا۔ اپ سمجھتی ہیں کہ صرف ہم لڑکوں کا ہی قصور ہے۔ مگر بہنا۔ ہم سے ذیادہ ان لڑکیوں کا قصور ہے جنہوں نے اپنے ساتھ دس دس بواے فرینڈ رکھے ہوتے ہیں۔ اور وہ فخر سے بتا رہی ہوتی ہیں انکے بارے میں۔ صرف ایک میں ہی نہیں ہوں۔ یہاں ذیادہ تر لڑکوں اور لڑکیوں کا کام یہی ہے کہ وہ بس اپنی لسٹ میں اضافہ کرتے ہیں انہیں کسی کے جذبات سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا ۔ آپکو کیا لگتا میں کسی کو نہیں روکا۔۔ بہنا میں بہت سی لڑکیوں کو روکا کہ ایسی حرکات بند کردیں مگر انہوں نے میری سننے کی بجائے مجھے دو چار مزید اضافہ کر کے دکھایام ایسے میں کس پہ اعتبار کیا جاسکتا ہے۔ میں غلط کرتا ہوں۔ کرتا ایا ہوں۔۔ پر بہنا یہ میں آپکو یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ میں نے خود کو بدلنا شروع کردیا ہے۔ کیونکہ اج تک میں نے آپ جیسی لڑکی نہیں دیکھی۔ جس کا کردار سچ میں مظبوط ہے۔ زین کافی جوش میں آگیا تھا۔ زری کے تو حواس ہی گم ہوگئے۔ زین نے جو حقیقت اس سے بیان کی تھی وہ تو اس سب سے کبھی آشنا نہیں ہوئی تھی زین تو کوئی اور ہی کہانی سنا رہا تھا۔ کیا سچ میں ایسا ہے۔۔ زری نے کافی حیران لہجے میں پوچھا۔ بہنا۔۔ سو فیصد ایسا ہی ہے۔ اپ نے کبھی اپنے ارد گرد نظر ڈالی ہی نہیں ہے۔ کبھی اپنے آپ سے باہر نکل کر دیکھیں آپکو سب دکھائی دے گا۔ سب غلط نہیں ہوتے بہنا۔ بس جن لوگوں نے غلط کیا ہوتا ان کے چرچے اس قدر زیادہ ہو تے ہیں کہ جو اچھے لوگ ہوتے ہیں وہ بچارے مفت میں ہی مارے جاتے ہیں ۔ آپ بہن ہیں۔۔ میں آپ کو وہ سب نہیں بتا سکتا جو میں نے دیکھا ہے۔ آپکی جگہ کوئی لڑکا ہوتا تو اسے سب بتاتا۔بس اتنا سمجھ لیں یہ دنیا ویسی نہیں ہے جیسا آپ سوچتی ہیں۔ آپ بہت کمزور ہیں م خود کو مضبوط بنائیں اور لوگوں اور حالات کا مقابلہ کرنا سیکھیں۔ میں اپکو سکھاوں گا اگر آپ اجازت دیں م بہنا میں نے صرف منہ سے بہن نہیں کہا آپکو دل سے تسلیم کیا ہے۔ میرے اپنے گھر میں دو بہنیں ہیں م مجھے معلوم ہے انکی عزت کیسے کی جاتی ہے۔ زین نے اپنی بات کو مکمل کرنے کے بعد اٹھ کھڑا ہوا۔ میں چلتا ہوں ۔ آپ بھی سوچ رہی ہوں گی کتنا بولتا ہے یہ لڑکا۔ اللّه‎‎ حافظ۔ خیال رکھئے گا اپنا۔ یہ کہہ کر وہ چلا گیا۔۔ جبکہ زری ابھی تک اسکی باتوں میں الجھی ہوئی تھی۔ 🔯🔯🔯🔯🔯🔯🔯🔯🔯🔯🔯🔯🔯🔯🔯🔯🔯🔯 زری کا اب کھویا ہوا اعتماد پھر سے بحال ہورہا تھا زین نے اس کی ہر جگہ پر مدد کی جتنی وہ کرسکتا تھا۔ وہ خود بھی اپنی الٹی حرکات سے کافی حد تک باز اگیا تھا۔ زری ڈیپارٹمنٹ سے نکل کر گیٹ کی طرف جارہی تھی۔کہ اسے ایک جونیئر لڑکے نے روک لیا۔ سنئے۔ مجھے اپکی ہیلپ چاہیے۔ کچھ نوٹس چاہیے۔ اگر آپ دے دیں۔ آپ جا کر کسی اور سے مانگ لیں۔ میری کلاس کے سی آر سے کہہ دیں۔ پر مجھے تو تم سے ہی ہیلپ چاہیے ۔ میرا نمبر لے لو یا دے دو اپنا میں اس پہ رابطہ کر لونگا۔۔زری کوئی جواب دیتی کہ زین آگیا۔ کیا چاہیے تمہیں ۔ مجھ سے مانگ لو۔ دیتا ہوں تمہیں۔ زری دو قدم پیچھے ہٹ گئی۔ میں تم سے بات نہیں کر رہا اور تم ٹانگ مت اڑاو اپنی سمجھے۔
کیوں۔ کیوں نہ اڑاو۔۔ زین نے اب کافی سختی سے کہا۔ او جا بھائی کام کر اپنا ۔۔ خامخاہ ہی لوگوں کے معمولات میں پنگے بازی کرنے آگیا۔ یہ میرا معاملہ ہے۔ لوگوں کا نہیں سمجھ میں آیا۔۔ زین کافی غصہ میں تھا۔ کیوں۔۔ کیا لگتی ہے یہ تیری۔۔ لڑکے نے طنز کیا۔ بہن ہے میری۔۔ کر بکواس اب آگے۔ تیری ایک بھی ہڈی سلامت رہی تو نام بدل دینا میرا۔ بھیا پلیز۔۔ زری نے معاملہ خراب ہوتے دیکھا تو فوراً ٹوک دیا۔ بہنا اسکا تو اب میں کچھ کر کے جاؤں گا ۔۔ پلیز بھیا۔۔ چلیں یہاں سے۔ زری نے اسکی منت کی۔ زین نے اس لڑکے پہ ایک سخت نگاہ ڈالی اور وہاں سے ہٹ گیا۔ 🔯🔯🔯🔯🔯🔯🔯🔯🔯🔯🔯🔯🔯🔯🔯🔯🔯 کیا ضرورت تھی آپکو اس کے منہ لگنے کی۔ بولتا رہتا کرتا رہتا بکواس۔ کیوں جواب دیا اپ نے اسے۔ زین اب فل غصہ میں تھا بھیا وہ۔۔ زری کے حلق سے آواز نہیں نکل پا رہی تھی۔ کیا وہ۔۔ ایک بار سمجھ نہیں آیا۔۔ نتیجہ بھگتا ہے نا۔۔ وہ تو کلاس کا لڑکا تھا۔ یہ اسے تو آپ جانتی بھی نہیں۔
نہیں بھیا۔۔۔ میں نے تو بس یہی کہا کے سی آر سے کہہ دے۔
آپ ایک کام کیوں نہیں کرتی باہر بورڈ لگوا لیں ۔ فلاحی ادارہ کھول لیں۔ سب کی ہیلپ کریں پڑھائی میں۔
سب کو بلا لیں۔۔ پوری دنیا کو۔ اور بٹھا کر انکی مدد کریں۔ ہر کسی کے بلانے پر جواب دیا کریں اسے۔ بلا کر نا بٹھا لیا کریں پاس تسلی سے پوچھ لیا کریں۔ سوری۔۔ بھیا۔۔ کیا سوری۔ میں پتہ نہیں سمجھا ہی کیوں رہا ہوں آپکو۔ اپ کرو اپنی مرضی جو جی میں آئے کرو۔ اب کی بار وہ غصے میں جب پلٹا۔ تو اس نے زری کو فل سپیڈ سے روتے دیکھا۔

   1
0 Comments